اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَىَ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ وَعَلَىَ آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِماً كَثِيراً

Thursday 19 October 2017

ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ

ﻣﺤﺴﻦِ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ، ﺭﺣﻤﺖ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﺤﻤﺪ ﻣﺼﻄﻔﯽٰ ﷺ ﮐﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺭﺷﺎﺩﺍﺕ ﻣﻼﺣﻈﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺌﮯ :
٭ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺖ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻟﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻮﮞ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟ ﻭﮦ ﮐﮩﮯ ﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻮﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﻮﮞ، ﻣﯿﺮﮮ ﭼﻨﺪ ﯾﺘﯿﻢ ﺑﭽﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﺟﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﺍﻃﺎﻋﺖ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﯿﺎﮞ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺎﻥ ﻭ ﻣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻧﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﻮ ﺟﻨﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﯿﺪ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺟﮧ ﮨﻮﮔﺎ۔
٭ ﺟﻮ ﻋﻮﺭﺕ ﺫﯼ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﭘﻨﮯ ﯾﺘﯿﻢ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻭ ﭘﺮﻭﺭﺵ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻧﮑﺎﺡ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﻗﺮﯾﺐ ﻣﺜﻞ ﺍﻥ ﺩﻭ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ۔
٭ ﺟﺲ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯿﺎ، ﻓﺮﺍﺋﺾ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﮨﯿﺰ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﻔﻠﯽ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﮐﺎ ﺛﻮﺍﺏ ﺧﺪﻣﺖِ ﺷﻮﮨﺮ، ﭘﺮﻭﺭﺵِ ﺍﻭﻻﺩ، ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻮﺭِ ﺧﺎﻧﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔
٭ﺟﺐ ﻋﻮﺭﺕ ﺣﺎﻣﻠﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺟﮩﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ‏( ﻋﻮﺭﺕ ‏) ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺛﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ
بندوں کے حقوق انہی کے معاف کرنے سے مشروط ہوتے ھیں.جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی حق تلفی کرتا ھے اسے تکلیف دیتا ھے تو مغفرت کے دروازے تبہی کھلتے ھیں جب ظالم مظلوم کےدروازے پہ کھڑا ہوتا ھے.سجدوں میں رونے کی بجائے مظلوم کے گھر سے ہوتا ہوا مسجد نہیں جاتا.تب تک اس کی کوئی دعا ، استغفار قبول نہیں ہوتی
ایک عورت تھی جس کا خاوند اُس سے بہت پیار کرتا تھا۔
اس عورت سے اُس کی خوشیوں بھری زندگی کا راز پوچھا گیا کہ..
آیا وہ بہت لذیز کھانا پکاتی ہے؟ یا اس کا خاوند اس کے حسن و جمال پر فریفتہ ہے؟ یا وہ بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی خاتون رہی ہے؟ یا پھر اس کی محبت کا کوئی اور راز ہے؟
عورت نے یوں جواب دیا:
خوشیوں بھری زندگی کے اسباب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات کے بعد خود عورت کے اپنے ہاتھوں میں ہیں۔
عورت چاہے تو وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے اور اگر چاہے تو جہنم بنا دے۔
مت سوچیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا سبب ہے۔ تاریخ میں کتنی ہی مالدار عورتیں ایسی ہیں جن کے خاوند اُن سے کنارہ کش ہو گئے۔
نہ ہی بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی بہت بڑی خوبی ہے۔ کئی عورتوں نے دس دس بچے جنے مگر وہ اپنے شوہروں سے کوئی خصوصی التفات و محبت نہ پا سکیں بلکہ نوبت طلاق تک جا پہنچی.
اچھا کھانا پکانا بھی کوئی خوبی نہیں ہے، سارا دن کچن میں کھانے پکانے کے باوجود بھی عورتیں خاوند کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں.
تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُرسعادت اور مسرت بھری زندگی کا راز؟ اور آپ اپنے اورخاوند کے درمیان درپیش مسائل و مشکلات سے کس طرح نپٹا کرتی تھیں؟
اُس نے جواب دیا:
جس وقت میرا خاوند غصے میں آتا اور بلا شبہ میرا خاوند بہت ہی غصیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں (نہایت ہی احترام کیساتھ) مکمل خاموشی اختیار کر لیا کرتی تھی۔ احترام کےساتھ خاموشی یعنی آنکھوں سے حقارت اور طنزیہ پن نہ جھلکے۔ آدمی بہت عقلمند ہوتا ہے ایسی صورتحال کو بھانپ لیتا ہے۔
تو آپ ایسے میں کمرے سے باہر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟
اُس نے کہا: خبردار ایسی حرکت مت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا، تم اُس سے فرار چاہتی ہو اور اُسکا نقطہ نظر نہیں جاننا چاہتی. خاموشی تو ضروری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے ناصرف سُننا بلکہ اُس سے اتفاق کرنا بھی اُتنا ہی اشد ضروری ہے۔
میرا خاوند جب اپنی باتیں پوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہر چلی جاتی تھی، کیونکہ اس سارے شور، شرابے کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہے۔
میں اپنے روزمرہ کے گھریلو کاموں میں لگ جاتی، اور اپنے دماغ کو اُس جنگ سے دور رکھنے کی کوشش کرتی.
تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تعلقی اور بول چال چھوڑ دینا وغیرہ؟
اُس نے کہا:
ہرگز نہیں، بول چال چھوڑ دینے کی عادت انتہائی گھٹیا اور خاوند سے تعلقات کو بگاڑنے کیلئے دورُخی تلوار کی مانند ہے۔ اگر تم خاوند سے بولنا چھوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع میں اُس کیلئے یہ تکلیف دہ ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنے کی کوشش بھی کریگا۔ لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چھوڑو گی تو اُس میں تم سے دو ہفتوں تک نہ بولنے کی استعداد پیدا ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے بغیر بھی رہنا سیکھ لے۔
خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ تمہارے بغیر اپنا دم بھی گھٹتا ہوا محسوس کرے گویا تم اُس کیلئے ہوا کی مانند ہو. گویا تم وہ پانی ہو جس کو پی کر وہ زندہ رہ رہا ہو۔ باد صبا بنو باد صرصر نہیں..
اُس کے بعد آپ کیا کرتی تھیں؟
اُس عورت نے کہا:
میں دو یا دو سے کچھ زیادہ گھنٹوں کے بعد جوس یا پھر گرم چائے لے کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت سلیقے سے کہتی، لیجیئے چائے پیجیئے۔ مجھے یقین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جوس کا متمنی ہو گا. میرا یہ عمل اور اپنے خاوند کے ساتھ گفتگو اسطرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غصے یا لڑائی والی بات سرے سے ہوئی ہی نہیں۔ جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے اصرار کر کے بار بار پوچھ رہا ہوتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں ہوں۔ میرا ہر بار اُسے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہرگز ناراض نہیں ہوں۔
اسکے بعد وہ ہمیشہ اپنے درشت رویے کی معذرت کرتا اور مجھ سے گھنٹوں پیار بھری باتیں کرتا تھا۔
تو کیا آپ اُس کی ان پیار بھری باتوں پر یقین کر لیتی تھیں؟
ہاں، بالکل. میں جاہل نہیں ہوں۔ کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یقین کر لوں جو وہ مجھے غصے میں کہہ ڈالتا ہے اور اُن باتوں کا یقین نہ کروں جو وہ مجھے محبت اور پرسکون حالت میں کہتا ہے؟
تو پھر آپکی عزت نفس کہاں گئی؟
کیا عزت اسی کا نام ہے کہ تم غصے میں آئے ہوئے ایک شخص کی تلخ باتوں پر تو یقین کرکے اُسے اپنی عزت نفس کا مسئلہ بنا لومگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اہمیت نہ دو جو وہ تمہیں پیار بھرے اور پرسکون ماحول میں کہہ رہا ہو!
میں فوراً ہی اس غصے کی حالت میں دی ہوئی گالیوں اور تلخ و ترش باتوں کو بھلا کر اُنکی محبت بھری اور مفید باتوں کو غور سے سنتی تھی۔
جی ہاں، خوشگوار اور محبت بھری زندگی کا راز عورت کی عقل میں موجود ہے مگر یہ راز اُسکی زبان سے بندھا ہوا ہے.

Sunday 1 February 2015

غلام ہیں غلام


غلام ہیں غلام ہیں رسول کے غلام ہیں غلامیے رسول میں


 موت بھی قبول ہے جو نا ہو عشق مصطفا تو زندگی فضول

 ہے

Tuesday 13 January 2015

میرے ماں باپ اۤپ پہ قربان یا رسول اللہ ﷺ


•.¸.•* بِسْمِ اللهِ الْرَّحْمَنِ الْرَّحِيمِ *•.¸.•* میرے ماں باپ اۤپ پہ قربان یا رسول اللہ ﷺالصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یارسول اللہ ﷺ وعلٰی آلک واصحابک یا سیدی یا حبیب اللہ ﷺ الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا نور من نور اللہ وعلیٰ الک واصحابک یا سیدی یا خیر خلق اللہ الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا شفیع المذنبین


Saturday 3 January 2015

ﮐﻤﺎﻝِ ﺧﻠّﺎﻕ ﺫﺍﺕ ﺍُﺳﮑﯽ

ﮐﻤﺎﻝِ ﺧﻠّﺎﻕ ﺫﺍﺕ ﺍُﺳﮑﯽ
ﺟﻤﺎﻝِ ﮨﺴﺘﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﺍُﺳﮑﯽ
ﺑﺸﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻋﻈﻤﺖِ ﺑﺸﺮ ﮨﮯ
ﻣﺮﺍ ﭘﯿﻤﺒﺮ )ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺷﺮﺡِ ﺍﺣﮑﺎﻡِ ﺣﻖ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ
ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺧﻮﺩ ﺣﻮﺍﻟﮧ
ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻗﺮﺁﻥ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻗﺎﺭﯼ
ﻭﮦ ﺁﭖ ﻣﮩﺘﺎﺏ ﺁﭖ ﮨﺎﻟﮧ
ﻭﮦ ﻋﮑﺲ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﺋﯿﻨﮧ ﺑﮭﯽ
ﻭﮦ ﻧﮑﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﺧﻂ ﺑﮭﯽ ﺩﺍﺋﺮﮦ ﺑﮭﯽ
ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﮨﮯ ﺧﻮﺩ ﻧﻈﺮ ﺑﮭﯽ
ﻣﺮﺍ ﭘﯿﻤﺒﺮ )ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﺷﻌﻮﺭ ﻻﯾﺎ ﮐﺘﺎﺏ ﻻﯾﺎ
ﻭﮦ ﺣﺸﺮ ﺗﮏ ﮐﺎ ﻧﺼﺎﺏ ﻻﯾﺎ
ﺩﯾﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻣﻞ ﻧﻈﺎﻡ ﺍﺳﻨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮨﯽ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﻻﯾﺎ
ﻭﮦ ﻋﻠﻢ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﺣﺪ ﺑﮭﯽ
ﺍﺯﻝ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﺪ ﺑﮭﯽ
ﻭﮦ ﮨﺮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺭﺍﮨﺒﺮ ﮨﮯ
ﻣﺮﺍ ﭘﯿﻤﺒﺮ )ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﮨﺮ ﺍﮎ ﭘﯿﻤﺒﺮ ﻧﮩﺎﮞ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ
ﮨﺠﻮﻡِ ﭘﯿﻤﺒﺮﺍﮞ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﺲ ﻃﺮﻑ ﮨﮯ ﺧﺪﺍ ﺍﺩﮬﺮ ﮨﮯ
ﻣﺮﺍ ﭘﯿﻤﺒﺮ )ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﮑﯿﺰﮦ ﺍﮎ ﭼﭩﺎﺋﯽ
ﺫﺭﺍ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺍﮎ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ
ﺑﺪﻥ ﭘﮧ ﮐﭙﮍﮮ ﻭﺍﺟﺒﯽ ﺳﮯ
ﻧﮧ ﺧﻮﺵ ﻟﺒﺎﺳﯽ ﻧﮧ ﺧﻮﺵ ﻃﺒﺎﻋﯽ
ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﻞ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺟﺴﮑﯽ
ﮔﻨﯽ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺻﻔﺎﺕ ﺟﺴﮑﯽ
ﻭﮨﯽ ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥِ ﺑﺤﺮ ﻭ ﺑﺮ ﮨﮯ
ﻣﺮﺍ ﭘﯿﻤﺒﺮ )ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮ ﮨﮯ؎
ﺟﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﻟﮩﻮ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﻟﮯ
ﻣﺼﯿﺒﺘﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﭘﺮ ﻟﮯ
ﺟﻮ ﺗﯿﻎ ﺯﻥ ﺳﮯ ﻟﮍﮮ ﻧﮩﺘﺎ
ﺟﻮ ﻏﺎﻟﺐ ﺁﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺻﻠﺢ ﮐﺮ ﻟﮯ
ﺍﺳﯿﺮ ﺩﺷﻤﻦ ﮐﯽ ﭼﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ
ﻣﺨﺎﻟﻔﻮﮞ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ
ﺍﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺻﺎﺩﻕ ﮨﮯ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﮨﮯ
ﻣﺮﺍ ﭘﯿﻤﺒﺮ )ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﺟﺴﮯ ﺷﮧِ ﺷﺶ ﺟﮩﺎﺕ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ
ﺍﺳﮯ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ
ﮐﺪﺍﻝ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﮨﺎﺗﮫ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ
ﻟﮕﮯ ﺟﻮ ﻣﺰﺩﻭﺭ ﺷﺎﮦ ﺍﯾﺴﺎ
ﻧﮧ ﺯﺭ ﻧﮧ ﺩﮬﻦ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺍﯾﺴﺎ
ﻓﻠﮏ ﻧﺸﯿﮟ ﮐﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﮧ ﮔﮭﺮ ﮨﮯ
ﻣﺮﺍ ﭘﯿﻤﺒﺮ )ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺧﻠﻮﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺻﻒ ﺑﮧ ﺻﻒ ﺑﮭﯽ
ﻭﮦ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ
ﻣﺤﺎﺫ ﻭ ﻣﻨﺒﺮ ﭨﮭﮑﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ
ﻭﮦ ﺳﺮ ﺑﺴﺠﺪﮦ ﻭﮦ ﺳﺮ ﺑﮑﻒ ﺑﮭﯽ
ﮐﮩﯽ ﻭﮦ ﻣﻮﺗﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺘﺎﺭﮦ
ﻭﮦ ﺟﺎﻣﻌﯿﺖ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﺎﺭﮦ
ﻣﺮﺍ ﭘﯿﻤﺒﺮ )ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ( ﻋﻈﯿﻢ ﺗﺮ ﮨﮯ
ــــ ـــــــــــــــ ـــــــــــــــ ــــــــــــــ